غروب آفتاب کے بعد شام کا اندھیرا چھاتے ہی توپوں کی گھن گرج اور بندوقوں کے منہ جب بند ہوئے تو دور ایک گھنے پیڑ کے نیچے میں نے ایک بڑے پتھر پہ لیٹنا چاہا۔تھکن سے چور بدن اور جنگ کی کارستانی سے گلے سڑے ضمیر کا بوجھ لیے چند ہی لمحوں میں آنکھیں بند ہو گئیں۔ خواب میں اپنے بدن سے نکلتا ہوا روح دیکھ کے ضمیر نے ایک عجیب سی انگڑائی لی۔ چند لمحوں میں ایک بہت بڑے مجمعے میں لوگ ایک بڑے جنرل کے سامنے گردن جھکائے کھڑے تھے۔ ایک عجیب سی ڈراؤنی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اسی خاموشی میں کچھ بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔قومیت پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ پاکستان، افغانستان، کشمیر، فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، ویتنام، افریقہ وغیرہ کے بچے تھے جو انکے ادھ کٹے بدنوں سے پتہ چل رہا تھا کی کسی ظالم کے بنائے بم یا چلائی ہوئی گولی لگنے سے ادھ کٹے تھے۔ دور دریا کنارے ایک بچہ خود سے یوں گویا تھا کہ “اے رب کائنات! میرا ضمیر، دل و دماغ حتیٰ کہ جسم کا کوئی انگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ تم سے کوئی غلطی سرزد ہو سکتی ہے دنیائے عالم کیلئے تمہارا بنایا ہوا اور بھیجا ہوا خلیفہ راستہ بھٹک گیا ہے بلکہ بھٹک نہیں گیا ایک الگ راستہ بنائے بیٹھا ہے جس کو کوئی مذہب، کوئی رسم، کوئی رواج، کوئی تہذیب ماننے کو تیار نہیں۔اسنے دنیا کو بیش بہا فرقوں میں تقسیم کیا ہے اور اسی تقسیم کے تحت ہر فرقہ دوسرے فرقے کو مارنے میں ماہر بن گیا ہے۔ تمہارے ہوتے ہوئے کہ حبل الورید (jugular vein) سے زیادہ قریب، 70 ماوں سے زیادہ پیار کرنے والے رب کے ہوتے ہوئے ہمیں بے دردی سے بلا وجہ مارا گیا، جلا کے مارا گیا, مار مار کے جلایا گیا. کچھ لوگوں نے دنیا میں غریب کیلیے تمہارے سوا کچھ نہیں چھوڑا. اب دنیا میں ہاتھ، پیر، آنکھ، کان اور خصوصاََ زبانیں بے کار ہو گئیں ہیں. ہاں البتہ آنسوں بہانے کیلیے دو آنکھیں اور یہ نہ ختم ہونے والے ظلم کو برداشت کرنے کیلیے خون کا ایک لتھڑا (دل) کارآمد ہے. میں گردن جھکائے کھڑا بچے کی سسک سسک کر خود سے یا خدا سے ہونے والی گفتگو سن رہا تھا کہ اچانک گولی کی آواز سنائی دی اور ایک انسان نما بھیڑیے کے اس آواز سے میری آنکھ کھل گئ
Shoot The Damn Kid, He Might Be Armed…!
❤️🩹حقیقت پر مبنی اور دل کو دہلا دینے والی تحریر