اولا نہیں نہ مصرعہ ثانی پسند ہے
ہم کو تو بس غزل کی روانی پسند ہے
ہم تجھ کو بولتے ہوئے آئیں ہیں دیکھنے
تو سوچتا ہے ہم کو کہانی پسند ہے
ہم نے کہا گلاب سے یہ معذرت کے ساتھ
خوشبو میں ہم کو رات کی رانی پسند ہے
اس نے مرے مکان کا نقشہ بگاڑ کر
ہنس کر کہا کہ نقل مکانی ، پسند ہے ؟
اس درسگاہ عشق پہ لعنت تو بھیج دوں
بس روکتا ہوں خود کو کہ بانی پسند ہے
ہم کو تمہارا نام چھپانے کے واسطے
یہ بولنا پڑا کہ فلانی پسند ہے
اس شخص سے فضول ہے اُمید عدل کی
پانی میں جس کو آگ لگانی پسند ہے