عنوان: پریشان ہونا چھوڑیئے جینا شروع کیجیئے
مصنف: ڈیل کارنیگی
مترجم: طیبہ ارشد
پبلشر: کتاب میلہ
طوالت: ۲۵۶ صفحات

شاعری میں فیض احمد فیض اور پرسنلٹی ڈویلپمنٹ میں ڈیل کارنیگی کا سحر ہی ایسا ہے کہ جب بھی پڑھتا ہوں تو زبان پر بے اختیار غالب کا شعر آتا ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کی جو اس نے کہا
میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ فیض صاحب جب بھی لکھتے ہیں دل کے تاروں کو چھیڑنے ہیں۔ گمان ہوتا ہے گویا ہو بہو میرے احساسات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اسی طرح ڈیل کارنیگی کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب باتیں میرے دماغ کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں پڑی تھیں۔ مصنف نے فقط اس کو زبان دی ہے۔ ڈیل کارنیگی سے یہ خاص نسبت مجھے ہمیشہ ان کی تصانیف کی طرف کھینچتی ہے۔

کارنیگی بیسویں صدی کے مشہورِ زمانہ مصنف اور موٹیویشنل سپیکر رہے ہیں جنہیں شہرتِ عام انکی تصنیف
“How to win friends and influence people”
سے ملی لیکن انکے دیگر کتب بشمول
“How to stop worrying and start living”
بھی کم مقبول نہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے۔

یہ کتاب کوئی دقیانوسی مشوروں کا دفتر نہیں بلکہ ان اصولوں کا مجموعہ ہے جنکو زندگی کا شعار بنا کر معروف شخصیات نے اپنی پریشانیوں اور مسائل میں کمی لائی اور یہ ہمارے لئے بھی مشعلِ راہ ہیں۔

مصنف کی رو سے ہم اپنے مسائل کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک وہ جو حقیقی نوعیت کی ہوتی ہے اور دوسرے جو محض تصوراتی ہوتی ہے۔ دونوں کا تعلق بنیادی طور پر ہمارے ذہن اور سوچنے کے انداز سے ہے۔
مثلاً اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ماضی کی کوئی غلطی کوئی کوتاہی وہ ساری عمر یاد کرتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچ سوچ کے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے تصوراتی پریشانی۔ ایسا کر کے بندہ ماضی کی غلطیوں کا مداوہ تو نہیں کرسکتا لیکن اپنا حال برباد کر دیتے ہیں۔

کچھ اسی طرح کی سوچ ہماری مستقبل کے بارے میں بھی ہوتی ہے۔ ہم مفت میں مستقبل سے ملحقہ ایسے مسائل اور پریشانیوں کو سمیٹتے ہیں جنکا وجود تک نہیں ہوتا۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا جب ہم بچے تھے، ہم سوچتے تھے “جب میں جوان ہوں گا” اُدھر جوان کہتا ہے “جب میری شادی ہو جائے گی تو اصل زندگی شروع ہوگی” شادی ہو جائے پھر سوچتے ہیں “جب بچے ہوں گے تو اچھے دن شروع ہوں گے”۔ مستقبل کے بارے میں ہم یوں سوچ سوچ کر زندگی کے پرسکون لمحات ضائع کر دیتے ہیں اور پھر بچھڑے ہوئے ماہ و سال پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں لیکن وہ دن واپس نہیں آتے۔
ہمارا آج ہمارا قیمتی اثاثہ ہے۔ اسکو مستقبل کے بارے میں غیر حقیقی توہمات پر قربان کرنا کم فہمی ہے۔ اور نا ہی ماضی کے واقعات سر پر سوار کر کے اپنی پیش قدمی روکنی چاہیے۔

دوسری قسم کی پریشانی حقیقتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ ان کو کسی بھی جادوئی فارمولے سے زائل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم بہتر حکمت عملی سے انکا کا اثر کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔
بسا اوقات جب ہمیں زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہماری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں تو ہم سر پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ڈیل کارنیگی کی تحقیق کہتی ہے کہ ہمیں پہلے مسئلے کو سمجھنا چاہیے۔ پھر اسکو حل کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔ خدا نخواستہ کوئی بھی آپشن کارگر ثابت نہیں ہوتا تو اس سے ہمارے لیے دنیا ختم نہیں ہوجاتی۔ لہذا دل برداشتہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ چند اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔ ایک یہ کہ بعض حادثے اٹل ہوتے ہیں۔ جیسے کسی عزیز کا انتقال ہو جانا۔ اس قسم کے حالات کے لیے زہنی طور پر تیار رہے۔ اس سے اذیت کم ہو جاتی ہے اور حالات سے مقابلے کے لیے توانائی آجاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے آپ کو زہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھیں تاکہ دھیان صدمے کی طرف کم جائے۔ اس کے لیے مثبت سرگرمیاں جیسے کتب بینی، کھیل کھود اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاری کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کارگر نہ ہو تو اپنی پریشانی کسی با اعتماد شخص سے ڈسکس کریں جو آپ کی مشکل بانٹیں اور آپکو حوصلہ دیں۔ اس کے علاؤہ ہر کسی کا اپنے مسائل کے ساتھ ڈیل کرنے کا مختلف تجربہ ہوتا ہے جو بیسٹ سوٹ کرتا ہے اسکو عمل میں لائیں۔

یہ یاد رکھیں کہ جب تک سانس ہے تب تک کسی نہ کسی صورت میں پریشانیاں آپکا استقبال کرتی رہے گی۔ یہ ایک طرح سے نعمت بھی ہے۔ اسکواش کے مایہ ناز کھلاڑی جہانگیر خان نے ہے در پے ۵۵۵ بین الاقوامی مقابلے جیتنے کے بعد آخر کار جب شکست کا مزہ چکا تو کسی نے انکی تاثرات جاننی چاہی۔ اس نے کہا میں لگاتار جیت رہا تھا یہ میرا معمول بن گیا تھا مجھے جیت کی مسرت نہیں مل رہی تھی۔ آج جب ہار گیا ہوں تو احساس ہوگیا کہ جیت کتنی اہم ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشکلات کا اپنی ہمت کے مطابق مقابلہ کرے لیکن ناکامی کی صورت میں اسکے ساتھ اپنے آپ کو بہتر طریقے سے ڈھالنا ہی حل ہے۔ زندگی ایسے ہی بھر پور طریقے سے جی جاسکتی ہے۔

خوش گوار زندگی گزارنے کے جتنے اصول بھی کتاب میں بیان کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر ہمارے لاشعور میں ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان بظاہر چھوٹے چھوٹے اصولوں پر عمل کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ آپکو کوئی بھی موٹیویشنل بک پڑھنے کا موقع ملے تو کوشش کریں کہ ان مشوروں پر دھیان دیں جو آپ کے حالات سے مناسبت رکھتے ہیں اور پھر انکو ہائلائٹ کر کے اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔
ڈیل کارنیگی کے تصانیف نے مجھے خاص فایدہ پہنچایا ہے خاص کر انسانی تعلقات کے تناظر میں۔ یہ انکی تیسری کتاب ہے جو میرے زیرِ مطالعہ آئی ہے اور میں یہ قارئین کو بھی پڑھنے کی ترغیب دیتا ہوں۔ تاہم بہتر ہوگا کہ اصلی شکل یعنی انگریزی زبان میں پڑھا جائے۔