عنوان: حیاتِ جاوید
مصنف: مولانا محمد حسین حالی
تلخیص: پروفیسر سلیم اختر
پبلشر: سنگِ میل پبلی کیشنز
حجم: ۱۸۴ صفحات

برصغیر کی تاریخ اور پھر تحریکِ پاکستان میں بہت کم ایسے مسلم رہنماء گزرے ہوں گے جنہوں نے سماجی، تعلیمی اور سب سے بڑھ کر ایسے مذہبی تنازعات کو جنم دیا ہو جن کی بازگشت ایک صدی گزرنے کے بعد بھی سنائی دے۔ ان گنے چنے ناموں میں سر سید احمد خان سرِ فہرست ہے۔ سر سید جیسی متنازعہ شخصیت کی سرگزشت پر قلم اٹھانے کی بھاری زمہ داری کے لیے اُس زمانے میں الطاف حسین حالی کے علاوہ شائد ہی کوئی آمادہ ہوتا۔ برصغیر کے اس اعلیٰ پایہ شاعر، نثر نگار، اور سوانح نگار نے گو کہ شیخ سعدی اور اسد اللہ خان غالب جیسے نامور ہستیوں کی سوانحیات بھی قلم بند کی ہیں لیکن حیاتِ جاوید سر سید احمد خان کی نسبت ان میں سب سے ممتاز ہے۔

کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں سوانح حیات جبکہ دوسرے میں ان کی تحریک پر تبصرے کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے حیات میں انکی متنوع خدمات گنوائی گئ ہیں۔

سر سید احمد خان سلطنتِ مغلیہ کے ایک قدیم متوسط گھرانے کا ممبر تھا اور انکے خاندان کا غدر وقوع پذیر ہونے تک دہلی کے دربار میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ ۱۸۵۷ میں جس وقت غدر کے فسادات پھوٹ پڑے وہ بجنور میں صدر امین تھے۔ انہوں نے حسنِ تدبیر سے کئ یورپی مرد و خواتین کی جان بچائی اور یہی وہ واقعہ تھا جس کے صلے میں انہیں نا صرف خلعت سے نوازا گیا بلکہ انگریز سرکار کی قربت بھی نصیب ہوئی۔

سر سید احمد خان نے چونکہ اپنے نظریات کے سبب ساری عمر کھڑی مشکلات میں کاٹی۔ لہذا ضروری ہے کہ قارئین کو ان کے بے باکانہ نظریات سے روشناس کرایا جائے۔

سر سید کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ جب تک مسلمانوں اور انگریزوں میں موانست اور میل جول پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک مسلمانوں کا پنپنا دشوار ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مزہب اور تعلیم کا سہارا لیا۔ وہ مزہبی اصلاحات کے پر زور حامی تھے اور شائد اولین شخصیت بھی جس نے مذہبی لٹریچر میں نکتہ چینی کی بنیاد ڈالی۔ دینِ اسلام میں علماء، مفسرین، اور مجتہدین کی تقلید کو عقلی بنیادوں پر رد کر کے غیر مقلد، اور تمام مجموعہ احادیث کو قرآن کے مقابلے میں اپنی بحث سے نکال کر منکرِ حدیث اور اسی بنا پر ملحد اور کافر ٹہرے۔ فوتگی سے قبل آدھے قرآن کی تفسیر بھی لکھی جو کہ مزہبی حلقوں کی سخت تنقید کی زد میں آئی۔ اسی طرح بائبل میں لفظی تحریف کو رد کر کے ایک نئ تفسیر لکھنے کی کوشش کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اصولِ اسلام اور اصولِ اہلِ کتاب میں مطابقت ثابت کی جائے۔

رعایا اور حکومت میں منافرت کم کرنے کے لیے دوسرا کام انہوں نے مغربی طرزِ تعلیم کو عام کرنے کا کیا۔ انکی رائے میں ہندوستانیوں کی ترقی کا رازمغربی علوم اور مغربی زبانوں کی ترویج میں ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے دیسی زبانوں میں تعلیم دینے کی سخت مخالف کی۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مدرسے بنائے، سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور مضامین پر مضامین لکھ کر چھاپے۔

تعلیم کے سِوا وہ یورپ کی عام شائستگی، طرزِ تمدن اور حسن معاشرت کے بھی فین تھے اور انکی بود و باش کو نہ صرف خود اپنایا بلکہ عام ہندوستانیوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے۔ مشرقی تہذیب کے لیے انکی نفرت کے نمونے کتاب میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ہندوستانیوں کو حکومت کے لائق بھی نہیں سمجھتے تھے اور اس بات پر غیر متزلزل یقین تھا کہ ہمارے لیے انگلش گورنمنٹ سے موزوں کوئی گورنمنٹ نہیں ہوسکتی۔
گو کہ حالی نے انکو صلحِ کل پر یقین رکھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصوف ہندوؤں سے خاص بیر رکھتے تھے۔ انکو مسلمانوں کی معاشرتی خرابیوں کا سبب گردانتے اور اگر میں غلط بیانی کا مرتکب نہیں ہو رہا تو فقط ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنیاد پر کانگریس کی مخالفت کی۔ یہ سر سید احمد خان ہی تھے جنہوں نے صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ اقوام ثابت کیا۔

مولانا حالی کے بقول ہندوستان میں کسی ہیرو کا عیب یا خطا معلوم ہونا اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ سر سید ہر چند کہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار تھے تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی مسلمانوں کے لیے بے ریا خدمات بھی ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو جبکہ وہ دنیوی تعلیم کو فرنگی سازش سے تعبیر کرتے تھے جدید تعلیم سے روشناس کرایا جس کی تابندہ مثال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ کر انہوں نے بہت پہلے ہندوستان کے اندر ایک الگ ریاست کی تشکیل کا اشارہ دیا تھا۔ اور اس سے پہلے غدر کی پُر آشوب دور میں جبکہ انگریزوں کی ساری توپوں کا رخ مسلمانوں کی طرف تھا، سر سید نے “اسباب بغاوتِ ہند” لکھ کر سرکار کے دل سے مسلمانوں کے لیے فتور دور کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح مزہبی لوگوں کے فتوؤں کی پروا کیے بغیر عیسائی مشنریوں کے سامنے ڈٹ گئے اور ان مصنفین کو جنہوں نے اسلام یا پیغمبر اسلام پر اعتراضات کیے آخری سانس تک اپنی تحاریر سے دینِ اسلام کا روشن چہرہ دکھاتے۔

مجموعی طور پر کتاب بہت معلوماتی ہے جس سے ذاتی طور پر مجھے سر سید احمد خان کی نظریات کے بارے میں پہلی مرتبہ مفّصل جانکاری ہوئی۔ لہٰذا قارئین کو بھی پڑھنے کے لیے تجویز کرتا ہوں۔ بس اتنا دھیان رہے کہ حالی نے انیسویں صدی کے ادیب ہونے کے ناطے تھوڑی سی گاڑھی اردو کا سہارا لیا ہے۔ اور ہاں ایک بات اور، مصنف کے دعوے کے بر خلاف یہ ‘کریٹیکل بائیو گرافی’ سے زیادہ سر سید کا ‘دفاع’ معلوم ہوتا ہے۔ یوں بھی ہم نے کتاب پر کریٹیکل تبصرہ کر کے وہ خلا بھرنے کی کوشش کی ہے۔