وہ میری خاموشی کو سننے والا پہلا اور آخری دوست تھا. بچپن سے لے کے اب تک وہ میرے ہر راز سے واقف تھا. وہ دکھ درد جو میں نے کبھی کسی کو نہیں سنائے وہ صرف اُسے سنائے۔ وہ جس کے دوستی کے قصیدے میں دن رات لوگوں کو سُناتا، جس کے ساتھ بیٹھ کر میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین بندہ تصور کرتا، جس کے ساتھ رہ کر میں دنیا کے قید و بند سے خود کو آزاد تصور کرتا. پچهتاوا، بے چینی، ناکامی کا خوف، جیسے الفاظ بے معنی پڑ جاتے تھے۔ میں اس سے وہ ساری باتیں کرتا جس کی وجہ سے میں اپنے ہی قسمت کو کوستا رہتا تھا، مذہبی حدود کے اندر کیے جانے والے سارے گناہ میں نے اسکے ہمراہ کیے تھے، کبھی کبھی یوں لگتا جیسے یہی میرا خدا ہو، زندگی بھر کبھی لا جواب نہیں ہوا میرے سامنے، البتہ ایک دن اس کے پاس میرے چند سوالوں کے جواب نہیں تھے جو میں بیان کرنا نہیں چاہتا۔ اکثر مجھ سے یہی کہتا مرنے کی جلدی مت کرنا. ہزار بار مرو مگر مر مر کے کبھی مت جیو. آج برسوں بعد اس کے ہوتے ہوئے بھی میں اکیلا تھا مگر میں اس بات کا یقین کرنے سے قاصر تھا، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جس سے میں نے اپنے تمام دکھ درد بانٹے تھے اس کے بارے لوگ کہہ رہے تھے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے.
!ﺯه يې هر ځای وينم، شېخه جوړ که جمات نورو له