میں کچھ دنوں سے اداس بیٹھی تمہارے بارے میں سوچتی ہوں
یہ ہاسٹل ہے یا جیل خانہ تم اپنے چہرے کا حال دیکھو
میں سوچتی ہوں کہ گھر سے چاول بنا کے لاؤں
تمہیں کھلاؤں
تم اچھا کھانا کبھی تو کھاؤ
اب اپنے چہرے کا حال دیکھو یہ گال اندر کو دب چکے ہیں کبھی تو انکھوں پہ غور کر لو ۔ سیاہ ہونٹوں کو کا دھیان رکھو ۔ تمہاری صحبت بری ہے لڑکے
یہ سگرٹوں وگرٹوں کو چھوڑو خیال رکھو ۔
کبھی کبھی تو یہ سوچتی ہوں کہ ضبط توڑوں میں گھر میں کہہ دوں کہ ایک شاعر جو اپنے لفظوں کے پیچ و خم سے زمیں کو گردش کا فن سکھائے
پھر ایک مصر تراشے اس میں فلک لکھے اور ستارے بانٹے پھر ایک دم سے وہ ماہر فلکیات بن کر کسی ستارے میں آگ ڈھونڈے
کسی میں آنسو
کسی میں آنکھیں
کہیں محبت کے نقش دیکھے
وہ نفسیاتی مریض لوگوں پہ نظم لکھے تو فرائیڈ بن کر ہر اک بیماری کا حل نکالے ۔
پھر اک محبت پہ شعر لکھے
اور ایک نفرت پہ شعر لکھے
وہ دونوں شعروں کو ایک کر کے قطع بنائے
تو عشق پھوٹے
وہ جارج ہیگل اسی طرح کے جدلیاتی تمام نسخے غزل کے بننے پر صرف کر دے ۔
میں سوچتی ہوں کہ گھر میں کہہ دوں
یہ ایک شاعر میری خوشی ہے
یہ ایک شاعر ہی دو جہاں ہے
یہ شاعر ہی میرا مندر
یہ ایک شاعر ہی دیوتا ہے
مگر تمہیں تو پتہ ہے ہادی ہمارے رسم و رواج کیا ہیں تمہیں پتہ ہے کہ پگڑیوں کے تمام پیچوں میں صرف عورت بندھی پڑی ہے
فضول باتیں میں سوچتی ہوں تم ان کو چھوڑو ۔
تم اپنے چاول مزے سے کھانا پھر اپنے کمرے کو صاف کرنا تمہیں قسم ہے
تم اپنی حالت پہ رحم کھاؤ یہ ہاسٹل ہے یا جیل خانہ تم اپنے چہرے کا حال دیکھو
سیف الرحمن جعفر