کسے خبر تھی کہ عمر کٹنے کے ساتھ کچھ بھی نہیں بچے گا۔

یہ ٹھیک پندرہ برس سے  پہلے کی داستاں ہے کہ میرے گھر میں ترا دوپٹہ ملا تھا مجھ کو 

وہ اک دوپٹہ چھپن چھپائی کے وقت تم سے گرا تھا لڑکی۔۔

عجیب دن تھے

وہ بانو آپا کی راجہ گدھ پڑھ کے آنکھیں مجھ کو دکھاتی رہتی 

اگر میں اسکو ذرا چھٹکتا تو چیخ اٹھتی کہ مرد گدھ ہے

وہ دور ندی کے پاس جندر کی کوک سننے کو روز جاتی

اسی غرض سے کہ عین  ممکن ہے مجھ نکمے کا بھی گزر ہو

وہ ایک کھجی کی ٹہنیوں سے کھجور سارے اتار لاتی 

انہیں سکھا کر یہ سوچتی تھی اگر وہ سردی کی چھٹیوں میں دوبارہ کوئٹہ سے گاؤں آیا تو اسکو سارے کجھور دوں گی

وہ متقی با نماز لڑکی ہمیشہ خط میں نماز پڑھنے کا حکم دینے کے بعد لکھتی ،، مری محبت ہو باز آؤ

 میں فلسفے کے عجب سوالوں میں قید کالج کا نیم ملحد عجیب لڑکا ۔

نہ جان پایا کہ گاؤں زادی کا عشق کیا ہے ۔

عجیب دن تھے۔

تمہاری آنکھوں پہ شعر کہنے سے قبل حلقے کا عام شاعر 

تمہاری آنکھوں پہ شعر کہنے کے بعد یزداں بنا ہوا تھا

 حسین عورت ، میں آج تک وہ تمہارے ہاتھوں کی ساگ اور اس مکئی کی روٹی کا منظر ہوں جو چوری چھپکے بنایا
کرتی تھی میری خاطر
وفا کی مٹی پہ چلنے والی وہ با وفا خوش خرام لڑکی نہ جانے کس زندگی کی حسرت میں اپنے پاوں کٹا چکی ہے ۔

وہ جا چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ 

سیف الرحمان جعفر