عنوان: سو سال بعد
طوالت: ۱۴۳
پبلشرز: جہانگیر بُکس
مصنف: نسیم حجازی

سوال: استاد کا کام کیا ہے؟
جواب: اچھی اچھی کتابوں کا مشورہ دینا۔
کیوں جی، جواب سن کر بھنویں کیوں چڑھا لی؟ عجیب لگا؟
خیر اس کا ایک پس منظر ہے۔ ایف ایس سی میں راقم نے ایک کتب دوست استاد سے اچھی کتب کے بارے میں استفسار کیا اور انہوں نے بِلا تردد نسیم حجازی کے تمام کتب پڑھنے کا مشورہ دیا۔ میں نے آمَنّا و صَدَّقْنَا کہا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حق حلال کی کمائی کا پائی پائی نسیم حجازی کی تصنیفات پر لٹا دیا۔
آج کوئی چھ سات سال کے اندر موصوف کی آخری کتاب پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے ان قارئین کی کم بختی پر رونے بیٹھ گیا جن کو اتنے اچھے اساتذہ دستیاب نہیں کہ نسیم حجازی جیسا مایہ ناز ادیب کی تصنیفات کی طرف راغب کریں۔

نسیم حجازی کتنا عظیم ادیب رہ چکا ہے۔ اس کا اندازہ آپ لوگوں کو ان کی مفصل تعارف کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
نسیم حجازی سنہ ۱۹۱۴ میں شریف حسین نام کے ساتھ راجہ پورس کی سرزمین ہندواسھتان میں پیدا ہوئے۔ حالانکہ انکا اشتیاق تھا کہ انکا جنم مبارک عرب کی کسی صحرا میں ہوتی کیونکہ وہ ایسی سرزمین پر پیدا نہیں ہونا چاہتے تھے جہاں اسکندر اعظم اور مغرور راجہ پورس کی لڑائی ہوئی ہو۔ لیکن من درچہ خیالم و فلک درچہ خیالم۔ خیر انہوں نے لڑکپن میں قلمی نام ‘نسیم حجازی’ اختیار کر کے حجاز سے نسبت کا شوق پورا کیا۔

مشہور ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ قیامِ پاکستان سے قبل سرکاری سکول میں مطالعہ پاکستان کے استاد تھے۔ بطورِ استاد ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انکو بعد از مرگ نشانِ امتیاز سے نوازا۔

امتیاز سے یاد آیا انکی امتیازی شان مطالعہ پاکستان نہیں بلکہ انکی دینی اور ادبی خدمات کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے اپنی ناولوں کے ذریعے آباؤ اجداد کی عظمتِ رفتہ کو کچھ اس شان سے بحال کیا کہ کافر عشروں تک اپنے بِلوں کے اندر دَبکے رہیں۔ انہوں نے اپنے ناولز میں عہد ساز شخصیات جیسے قاسم، طارق، ٹیپو اور یوسف کو زندہ کر کے انکو یہود و ہنود کے لشکروں سے ٹکرایا۔ اِن کے ہاتھوں دشمنوں کو اٹھایا اور اٹھا کر زمین پر پٹخا۔ ان ناولوں میں کبھی کبھی مجاہدین کو شکست بھی ہو جاتی لیکن انکو بازی گر کہلا کر وہی مرتبہ عطا کیا گیا جو فاتحین کا ہوتا ہے۔

ایک کام جو وہ بدقسمتی سے نہیں کرسکے، اور قریبی دوستوں کے مطابق، اس کا انہیں عمر کی آخری حصے میں بہت افسوس بھی تھا وہ تھا
مغربی اقوام سے علم و ترقی کا حصول۔ وہ علم و ترقی جو غیر مسلموں نے مسلمانوں سے قرونِ وسطٰی میں چوری کی تھی۔ نسیم حجازی نے اَنتک محنت کی اور کئ ناولز لکھ کر یہ قبضہ چڑھانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ جان کر کہ اب یہ اقوام ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوگئے ہیں اور کسی کو اپنی ترقی کے نزدیک بھٹکنے نہیں دیتے، وہ عمر کی آخری حصے میں رنجیدہ رہنے لگے۔

اگر بات کی جائے انکی تصنیفات کی۔ تو یوں تو موصوف کی سب کتب عالمی شہرت یافتہ ہے لیکن چند کتب ایسے ہیں جن سے اقوامِ عالم میں بہت بھونچال اٹھا۔ انکا مختصر احوال بیان کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے انکو برہمن سماج میں اپنی پیدائش پر غصہ تھا۔ سو یہ غبار انہوں نے ناول ‘محمد بن قاسم’ لکھ کر ہندوؤں پر اتارا۔ اس کتاب کے اندر انہوں نے برہمن سماج کی ایسی کی تیسی کی ہے۔
خیال رہیں کہ اس سے مصنف کا غصہ کم نہیں ہوا۔ نتیجتاً کچھ ہی عرصہ بعد ‘انسان اور دیوتا’ لکھ کر ہندؤ بَنیوں کے بچے کھچے حصار بھی فتح کر لیے اور ہندومت کو خوب رگڑا۔

قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ پُر امن گزرا لیکن ۱۹۶۵ میں پاکستان اور ہندواسھتان کی مڈھ بھیڑ ہوگئ۔ یہ خبر پاکر نسیم حجازی نے جلدی جلدی بارڈر کے دونوں اطراف مسلمانوں کو گِنا۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت واضح ہوجانے کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر قلم سے تلوار کا کام لیا اور پاک بوجھ کی حمایت میں میدان میں کود پڑے۔ اس کا نتیجہ کتاب ‘پورس کے ہاتھی’ کی شکل میں برآمد ہوا۔ اس تصنیف نے بہت جلد جنگ کا پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ دیا۔

انکی جنگی خدمات کو دیکھ کر پاکستانیوں کے اندر یہ غلط فہمی پھیل گئ کہ نسیم حجازی تو صرف تیر و کمان میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ بات جب حجازی کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ادب کی نئ صنف یعنی ہنسی مذاق میں قدم رکھا اور “سو سال بعد” لکھ ڈالا۔ جس میں حجازی نے ہنس ہنس کے ہندوؤں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

انہوں نے سو سال بعد کے ہندوستان کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ اگر ہندوؤ گوشت خور نہ بنے تو سو سال بعد جانوروں کی کثرت سے حالات بہت گھمبیر ہو جائیں گے۔ جانور انسانوں کی عرصہِ حیات تنگ کر دیں گے۔ بندہ مندر میں رام رام کرے تو بندر پیچھے سے زناٹے دار تھپڑ رسید کرے گا۔ سڑک پر گاڑی چلائیں تو ہاتھی نے راستہ روکا ہوگا۔ بال تھوڑے سے بڑھاؤ تو جوئیں مسکن بنا لیں گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات سے لاچار عوام بالآخر پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوں گے۔

آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ اُس زمانے میں نسیم حجازی جوان تھے اور انکی عقابی نگاہیں اتنی تیز تھی کہ آج کل کے حالات انہوں نے بغیر دوربین کے دیکھے تھے۔

نسیم حجازی کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دشمن کی کمزوریوں سے بھرپور فایدہ اٹھاتے تھے۔ ایک مرتبہ انکو کہیں سے علم ہوا کہ گاندھی جی کو بکری سے بڑی عقیدت ہے۔ اس پر نسیم حجازی جلال میں آئے اور “اونٹ کی شاہانہ شادی” کے نام سے کتاب پر کام شروع کیا۔ تاکہ گاندھی پر یہ واضح کریں کہ ہندوؤں کی بکری تو مسلمانوں کے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔ تاہم اس ناول پر تب کام روکنا پڑا جب کتاب کی ہلچل کا سن کر گاندھی جی نے موت کو دعوت دینے میں عافیت جانی اور بہت بڑی ندامت سے جان چھڑا لی۔

ان طویل مہمات سے فارغ ہوکر ابھی آپ رحمتہ اللہ علیہ نے زرہ اتارا ہی تھا کہ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ وہ ابھی اس صدمے سے باہر نہیں آئے تھے کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار سست ہوگئی۔ ضعیف العمری میں یہ صدمات انکی ناتواں جسم پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے ۱۹۹۶ میں جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔

ہاں جی تو تبصرہ کیسا لگا؟
اس سے قبل میری بک رویویز کو گروپ والے یہ کہ کر جھٹلاتے تھے کہ یہ بڑے تیکے قسم کے ہیں کیونکہ اس میں حجازی ضائقہ شامل نہیں۔ جس دن مجھ پر یہ راز کھلا تو بقول اقبال
ع۔ ‘حجازی’ روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں،
نظر آتی یے انکو اپنی منزل آسمانوں میں

میرے اندر بھی حجازی روح بیدار ہوگئ اور مصمم ارادہ کیا کہ اس کے بعد حجازی طرز پر ہی لکھیں گے۔ اب بھی یہ امکان موجود ہے کہ بعض دشمن عناصر اس تبصرے کو بہ وجہ ذاتی انا نہیں سراہے گے۔ لیکن مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ مجھ سے صدیوں پہلے حیدر علی آتش نے بھی مایوس ہو کر کہا تھا؛

یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دیں
احمد’ یہ ‘تبصرہ’ تو کیا عاشقانا کیا