یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا یہ وہ سحر تو نہیں

جب تک ہم نے اپنے اور اپنوں کی غلطی کو غلطی اور جرم کو جرم نہ کہیں، غریب کو حق دے کر امیر مجرم کو سزا نہ دیں، سرمایہ دار کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس کے سارے کالے دھندوں کے پیسے ضبط نہ کریں اور ان کو سزا نہ دیں، اپنے اور دوسروں کے حقوق کو پہچان کر انکی پاسداری نہ کریں۔ جب تک عمران، باجوہ، زرداری سے لے کر گلی کے نکڑ پر منتری منتری کھیلنے والے لونڈوں تک سب کا ضمیر جاگ نہ جائے یا غلطی کرنے پہ(عہدوں کو بالائے طاق رکھ کے) سب کے سروں کو اپنے آبائی محلے کے نکڑ پہ نہ لٹکایا جائے. زندہ باد مردہ باد والی سیاست سے نکل کر حقیقی اور عملی سیاست کا حصہ نہ بنے. عبادتگاہوں، دینی درسگاہوں سمیت تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی سرگرمی خصوصاً سیکس، سیکشول ہیرسمنٹ وغیرہ کرنے والے معلمین، اساتذہ یا کسی بھی انسان نما جانور کی آنکھیں نکال کے مجرم کو دریائے کابل میں نہ بہایا جائے. زنا بالجبر کرنے والے ہر بھیڑیے کوسرِعام سخت سے سخت سزا نہ دی جائے. اپنے وطن کے عہدیداروں اور مذہبی رہنماوں پہ/سے سوال یا اپنا حق مانگنے پہ کسی پہ غداری، کفر یا یہودیوں وغیرہ کے ایجنٹ کا ٹپہ لگائے جانے والا پروپیگنڈا ختم نہ ہو تب تک نہ ہم آزاد ہونگے اور نہ ترقی کر پائیگے۔ مختصر یہ کہ جب تک وطنِ عزیز میں قانون کی بالادستی، انصاف اور حقیقی عدالتی نظام رائج نہ ہو تب تک ہماری آزادی ایک خواب کے سوا کچھ نہیں
اس ملک میں رہنا ہے تو سب سے ذیادہ چیخنے چلانے والے ہجوم میں شامل ہو کے خاموشی سے انکی ہاں میں ہاں ملاؤ تو شاید آرام سےذندہ رہ پاؤ، لیکن یہ بھی یاد رہے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو ذندہ رہنے واسطے خاموش تھے
اس تحریر سے متفق لوگوں کو آزادی مبارک ہو اور سڑکوں پہ چیخنے، چلانے اور ہلہ گلہ کرنے والے آزادی لفظ کے معنی اور اپنے حقوق سے بے خبر لوگوں کو، جو ہر جگہ سے ٹھکرائے جانے اور ناکام ہونے کو قسمت کا لکھا سمجھتے ہیں، ان سب کو آزادی والے ڈرامے کا یہ قسط بہت بہت مبارک ہو
اللّٰه ہمارا حامی وناصر ہو

د نوې ژوند شعور په ﺫهن کښی روښان اوساتئ
خو که دا اونه شوه نو دغه درته هم واېمه
مونږ به هم داسې د دې دور غلامان پاتې شو
او غلامانو سره هر رنګه سلوک روا دې