عنوان: تاریخِ سکھ راج
مصنف: بلونت سنگھ
پبلشر: یو پبلشرز
طوالت: ۱۴۴ صفحات
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جس طرح سندھ کے نیشنلسٹ راجہ داہر کو وطن کا بہادر سپوت مانتے ہے جنہوں نے دیوانہ وار بیرونی “حملہ آوروں” کا مقابلہ کیا اور اپنی مٹی پر جان نچھاور کر دی. بالکل اسی طرح پنجاب کے کچھ حلقوں میں رنجیت سنگھ کو مٹی کے بہادر سورما کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے ایک محاذ پر انگریزوں کی قبضہ گردی کے آگے بند باندھا تو دوسری محاذ پر افغان حملہ آوروں کا غرور خاک میں ملا دیا۔
رنجیت سنگھ کی شخصیت اور اسکی سلطنت کے بارے میں یہی تجسّس بلونت سنگھ کی “تاریخِ سکھ راج” پڑھنے کا سبب بنی۔ اس کتاب کا پڑھنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس سے قاری کو تاریخ کے اس رخ سے شناسائی ہوتی ہے جس میں گو کہ حاکم غیر مسلم اور محکوم مسلمان ہیں لیکن حاکمیت ایسی کہ جس پر رشک کیا جا سکے۔
سردار بلونت سنگھ کی ادبی شناخت اگر چہ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی صنف سے علاقہ رکھتی ہے اور عموماً ہندی میں لکھتے ہیں لیکن انہوں نے دیگر اصناف پر بھی طبع آزمائی کی ہے جس کی ایک مثال تاریخِ سکھ راج کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
کتاب کی شروعات سکھ مذہب کی ابتدا اور پھر چیلنجیز سے بھر پور نشوونما سے ہوتی ہے۔ محمد حسین آزاد “قصصِ ہند” میں لکھتے ہیں کہ بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اسکی فوج نے سکھ مت کے بانی گورو نانک کو بیگار میں پکڑا۔ جب اس کو ظہیر الدین بابر کے سامنے پیش کیا گیا تو مغل شہنشاہ ان سے مل کر بہت متاثر ہوئے۔ تاہم آگے جا کر مغلوں کے ساتھ سکھوں کا یہ شیریں تعلق ایک تلخ موڈ پر ختم ہوتا ہے جب جہانگیر اور اورنگزیب دونوں اپنے ادوار میں سکھ گوروز (اعلیٰ ترین مذہبی پیشوا) کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ واقعات سکھوں کی تاریخی میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے کیونکہ اس کے بعد سکھوں کی روحانی تحریک میں سیاسیات کا دخل ہوتا اور وہ مغلوں کے خلاف مسلح جدو جہد پر اتر آئے۔
سکھوں کی مسلح جدو جہد میں بابا بندہ سنگھ بہادر کا نام اول نمبر پر آتا ہے کیونکہ اس شخص نے سرہند کے کچھ علاقوں پر فتح حاصل کر کے سکھ راج کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سکھوں کی بارہ مثل (مسلح جتھے) وجود میں نہیں آئے تھے۔ بعد ازاں جب مغلوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی طرف سے پنجاب (جو تب تک سکھوں کا مرکز بن چکا تھا) پر احمد شاہ ابدالی کی سرکردگی میں افغانیوں کے حملے بھی شروع ہو گئے تو سکھوں نے اپنی دفاع کے لیے بارہ مثل قائم کیں۔ ان بارہ مثلوں میں سے ایک سر چکیاں مثل جو کہ گجرانوالہ پر قبضہ جمائے ہوئے تھے کے سردار مہاں سنگھ کے ہاں سکھوں کی تاریخ کی عظیم حکمران رنجیت سنگھ کا جنم ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد مہاں سنگھ کے انتقال پر انکا دس سالہ چوکرا رنجیت سنگھ سردار بنتا ہے اور مختصر مدت میں جنگ و جدل اور پنجاب کی سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر سکھوں کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سردار رنجیت سنگھ مقامی رئیسوں اور باقی مثلوں سے علاقے چھین کر پنجاب کا شیر کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن شیر جیسا حوصلہ اور تدبر پیدا کرنے کے لیے انہیں پہلے پنجاب کی سرحدوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی خونخوار پنجوں سے حفاظت دلانی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ۲۵ اپریل ۱۸۰۹ میں انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے جس کی رو سے دریائے ستلج دونوں ریاستوں کے درمیان ایک غیر روایتی بارڈر تصور ہوگی۔ بوجہ معاہدہ دریائے ستلج سے پَرے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پیش قدمی رک جاتی ہے لیکن انکی فتوحات کا رخ اب شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں کی طرف مڑ جاتا ہے اور یکے بعد دیگرے کشمیر اور پشاور ریجن کو اپنا قلمرو بناتے ہیں۔ ابھی مہاراجہ کے اقبال کا ستارا پوری شان و شوکت سے چمک رہا تھا کہ ۲۷ جون ۱۸۳۹ کو پیغامِ اجل آتا ہے اور یوں فالج کے حملے سے ۵۸ سال کی عمر میں انکا انتقال ہوتا ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی دورِ بادشاہت میں پنجاب کے اندر امن و امان کو برقرار رکھا اور کبھی بھی اقتدار پر گرفت کمزور نہ ہونے دی۔ انکی اس قدر فتوحات کا راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہد میں فوج کو مضبوط و منظم رکھا اور اس مقصد کے لیے فوج کی یورپین طریقہ سے تنظیم سازی کی۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عاجز بھی تھے یہاں تک کہ دشمنوں سے بھی در گزر کرتے۔ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن دور اندیش بہت تھے۔ اللہ نے انکو ایسی لیاقت اور دانائی سے نوازا تھا کہ جو ریاست اس کے جانشینوں سے دس سال بھی نہیں سنبھل سکی وہ انہوں نے بغیر کسی مشکل کے عشروں تک قائم رکھی۔
انتقال سے قبل مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ کو مہاراجہ جبکہ کشمیر پر حکومت کرنے والے با اثر ڈوگرہ خاندان کے دھیان سنگھ کو اسکا وزیراعظم نامزد کردیا۔ دھیان سنگھ کو اہم منصب عطا کر کے دور اندیش مہاراجہ سے زندگی کے آخری ایام میں فاش غلطی ہوگئی۔ یہ بندہ سکھ راج کے لیے ایسا ناسور بنے کہ چند سال کے اندر اندر سلطنت کا بوریا بستر گول کر گئے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ کھڑک سنگھ کے ساتھ وزیراعظم کی ان بن ہوگئی جس پر وزیر نے بادشاہ کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے کھڑک سنگھ کو مروا کر اس کے جواں سال بیٹے نونہال سنگھ کو آگے لایا گیا۔ نونہال سنگھ مہاراجہ بنے تو اس نے دھیان سنگھ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے صاف انکار کر دیا جس پر دھیان سنگھ نے نئے مہاراجہ کو بھی ٹھکانے لگا کر اسکی ماں مہارانی چند کور کے سر پر تاج رکھ دیا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ چند کور کو اسکی جنس کی بنیاد پر تخت سے الگ کر کے زہر سے مروا دیا گیا اور رنجیت سنگھ کے دوسرے بیٹے شیر سنگھ کو تخت پر بٹھایا گیا۔ بعد ازاں جب شیر سنگھ بھی اپنے پیش رو کی طرح دھیان سنگھ کی قابو سے باہر ہونے لگے تو اسکو بھی سازش کر کے قتل کیا گیا اور اسکی جگہ دھیان سنگھ نے رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے دلیپ سنگھ کی بادشاہت کی حمایت کی۔ یہاں تک آکر محلاتی سازشوں اور اقتدار کی رسہ کشی نے سکھ راج کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ لوہا گرم دیکھ کر انگریز سرکار نے ہتھوڑے کی ضرب لگائی اور ۱۸۴۶ میں سکھ راج کو تھوڑی سے مزاحمت کے بعد ہندوستان میں ضم کردیا اور نابالغ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ یوں پنجاب پر سکھوں کے اقبال کا ستارا ٹمٹما کر بجھ گیا۔
ہم نے اس کتاب کا خلاصہ جیسا تھا ہو بہو ویسے ہی ایک قصے کی طرز پر پیش کر دیا۔ کتاب پڑھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک پنجابی نے پنجاب پر سکھوں کی حکومت پر اپنا نقطہِ نظر پیش کیا ہے تاہم یہ تاریخ پر قلم اٹھانے کے لیے ضروری چیز یعنی غیر جانبدار اور متوازن محسوس نہیں ہوتا۔ اور یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ مصنف بذات خود تاریخ دان نہیں ہے۔ مزید برآں کتاب میں جابجا اردو کے ساتھ ہندی الفاظ کثیر تعداد میں استعمال ہوئے ہیں لیکن عمومی زبان بحر حال ثلیث ہے جس کی وجہ سے پڑھنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی۔ اصل دقت یہ ہے کہ شمسی تقویم ‘عیسوی’ کی جگہ مصنف نے ہندی تقویم ‘بکرمی’ استعمال کی ہے۔
صاف لفظوں میں کہوں تو تاریخ کے طلباء کے لیے کتاب کوئی جاذبیت نہیں رکھتی لیکن وہ قارئین جو کم وقت میں اس موضوع پر سطحی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں انکے لیے یہ مختصر تصنیف بری نہیں ہے۔