افتخار عارف کا یہ دعویٰ کہ “جتنے اچھے ناول گزشتہ پچیس برسوں میں لکھے گئے ہیں، اتنے اردو ادب کی پوری تاریخ میں نہیں لکھے گئے” محض ایک ادبی مبالغہ ہی نہیں بلکہ اردو ناول کی بھرپور اور متنوع روایت سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ اس بیان میں ایک طرح کا فکری تعصب یا وقتی تاثر نظر آتا ہے جو کسی عارضی رجحان یا ذاتی پسند پر مبنی ہو سکتا ہے، لیکن اسے ایک عمومی سچائی کے طور پر تسلیم کرنا ناانصافی ہو گی۔ اردو ناول نے محض حالیہ برسوں میں نہیں، بلکہ اپنے ارتقائی سفر میں ایسے کلاسیکی اور دور رس اثرات رکھنے والے شاہکار تخلیق کیے ہیں جو نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی ادب میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ قرۃالعین حیدر کا “آگ کا دریا”، عبداللہ حسین کا “اداس نسلیں”، اور انتظار حسین کا “بستی” فکری وسعت، تہذیبی شعور، اور اسلوبیاتی تجربات کے لحاظ سے ایسی تخلیقات ہیں جن کی ہمسری شاید اتنی آسان نہیں۔ اگر موجودہ دور میں چند اچھے ناول سامنے آئے ہیں تو وہ بھی انہی تخلیقی روایات سے فیض یاب ہو کر وجود میں آئے ہیں۔ لہذا ایسی sweeping generalizations نہ صرف اردو ادب کی تاریخ کو غیر ضروری طور پر کم تر ثابت کرتی ہے بلکہ ان عظیم تخلیق کاروں کی کاوشوں کو بھی نظر انداز کرتی ہے جنہوں نے اردو ناول کو اس مقام تک پہنچایا جہاں آج کے ناول نگار کھڑے ہیں۔ اس قسم کی بے باک رائے سننے میں تو دلکش لگتی ہے، مگر تنقیدی توازن اور تاریخی شعور کے پیمانوں پر اسے برقرار رکھنا ممکن نہیں۔