آج میری زندگی کا سب سے سہانا اور خوبصورت دن تھا۔ جس دن کے لیے لوگ برسوں انتظار کرتے ہیں، جس دن کے واسطے شاعر غزلوں پہ غزلیں لکھ لیتے ہیں، جس دن کا تصور ہی کسی عاشق کے لیے عمر بھر کا خوراک ہو، جس دن کے لیے لوگ جیتے ہیں، جس دن کے لیے ساری تکلیفیں برداشت کی جاتی ہیں، جس دن کے واسطے ہر دل تڑپتا ہے، جس دن کے لیے ہجر کی طویل راتیں سہہ لی جاتی ہیں۔ آج وہی دن تھا۔

آج موسم بھی سہانا تھا، بارش بھی ہورہی تھی اور وہ بھی بہار کے آنے کی خوشی لانے والی بارش۔ وہ بارش جس کو کبھی اتنا محسوس نہ کیا، آج پتہ نہیں کیوں ایسے لگ رہا تھا جیسےبارش کی ہر اک بوند زمزمہ گا رہی ہو، جیسے مجھے آرام آرام سے ناچنے کے لیے اکسا رہی ہو۔

یوں میں نے میری زندگی کے سب سے حسین پَل، پاکستان کی سب سے حسین وادی میں، سب سے خوبصورت موسم میں، دنیا کے سب سے خوبصورت انسان کے ساتھ گزارے۔

میرے پاس الفاظ ختم ہورہے ہیں، دل خوشی کے مارے پھولے نہ سما رہا ہے۔ اتنی انتظار کے بعد اگر پھل اسی صورت میں مل جاۓ تو دنیا کی ساری رونقیں اسی پل کی محتاج نہ ہوجائیں۔ آج بالکل ایسا ہی منظر تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وقت رک گیا ہے اور میں چل رہا ہوں۔ وہ باتیں کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں گُم مجھے کچھ سنائ نہیں دے رہا تھا۔ ہم چہل قدمی کر رہے تھے، بارش کی بوندیں بالکل میرے گالوں پر گِر کر میری قسمت پر رشک کر رہے تھے۔ یہ سب لکھتے ہی میرا وہ قلم جو تین سال سے میرا وفا دار تھا، آج اور کچھ لکھنے سے قاصر ہوگیا لیکن خدا کی شان دیکھئے، جیسے ہی میں نے ناگواری میں اپنے بائیں طرف دیکھا ایک قلم مجھے چیخ چیخ کے بلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مجھے اٹھاؤ اور اپنی وصل کا قصہ لکھ ڈالو۔

یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ اسی اثناء میں میری نظر میری بائیں کلائ پر بندھی ہوئ گھڑی پر پڑی جو میرے مرحوم دادا کی نشانی تھی، وقت کافی گزر چکا تھا لیکن میرے ذہن میں ایک شعر بار بار گھوم رہا تھا جو اس نے جاتے وقت مجھ سے کہا تھا؛

اب کبھی سامنا نہیں ہوگا
میری تصویر پر گزارا کر