رختِ سفر باندھ کر اور خرچِ سفر اے ٹی ایم سے نکال کر ہم کالج لان کی طرف روانہ ہوئے ۔کالج پہنچ کر معلوم ہوا کہ پرنسپل صاحب نے ھدایات جاری کی ہیں کہ کہ ہمارے غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے ایک عدد ٹیچر ہماری نگرانی کے لیے شاملِ سفر کیا جائے ۔( اگر آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہو تو آپ باخوبی جانتے ہوں گے کہ پچھلے سال لاہور کے ٹرپ میں ہمارے چند کلاس فیلوز نے اساتذہ کرام کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا تھا جس کے نتیجے میں اساتذہ یونین نے ہمارے کلاس کا مکمل بائکاٹ کر رکھا ہے )۔
لہذا اِس فارمولے کے تحت کہ “مصیبت کے وقت گدھے کو بھی پاپ بنانا پڑتا ہے” ہم نے پانچ بزرگ TMOs کو منصبِ رہبری پر قبول کر لیا ۔ان کا واحد مقصد ہماری نگرانی کرنا تھا لیکن ٹرپ کے دوران ان کے مشکوک اور غیر مناسب حرکات کی وجہ سے ہمیں اِن کی نگرانی کرنی پڑی ۔

اس انتظام کے بعد ہمارا قافلہ تیار ہوا ۔ہمارے قافلے کے دو سالار تھے۔ ایک چھوٹے سالار( جو کہ ہمارے سی آر بھی ہیں) تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے کام ہمیشہ اپنے قد سے بڑے کیے ہیں اور دوسرے موٹے سالار (جو ہمارے ایل ایس بھی ہیں)، بقول اِنکے انہوں نے ڈیر لاکھ روپے اور اپنی عزتِ نفس گروی رکھ کر ہمارے لئے اس ٹرپ کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن پسِ پردہ کئی سالار اور بھی تھے ۔۔۔
دن کے تقریباً چار بجنے والے تھے کہ ہمارا قافلہ کالج سے روانہ ہو کر ایبٹ آباد کی جانب گامزن ہوا ۔تھوڑی دیر جانے کے بعد پتہ چلا کہ ایک لڑکا کالج رہ گیا ہے۔ لہذا اس کو اٹھانے کے لئے ڈرائیور نے گاڑی واپس موڑ لی ۔یہ لڑکا غصے سے لال پیلا اور پسینے سے گیلا ہو کر جب بس میں سوار ہوا تو اس نے بالخصوص ڈرائیور اور بالعموم ہم سب پر غصہ سے وہ بھڑاس نکالی جو ہمیں لگتا ہے کہ وہ وقت کی کمی کی وجہ سے واش روم میں نہیں نکال سکے تھے ۔

سفر شروع ہوتے ہی ڈرائیور نے گھبراتی ہوئی آواز میں کہا کہ بس کا بلوٹوتھ ٹیپ خراب ہے ۔۔۔۔بس پھر یہ فیصلہ ہوا کہ فی کس سو روپے جمع کرا کے نیا لگوایا جائے۔ اور پیسے اکٹھا کرنے کا گداگرانہ کام میرے سپرد کیا گیا ۔ ہمارے ایک کلاس فیلو جو کہ ایک اعلیٰ درجے کے کنجوس ہیں ان سے پیسے نکلوانا میرے لیے جہادِ اکبر ثابت ہوا ۔میں اسے قائل کرنے کے لیے بولا کہ یار آج کے زمانے میں سو روپے کوئی بڑی بات نہیں دے دو تو آگے سے موصوف نے اپنی کنجوسی کو فلسفیانہ رنگ دیتے ہوئے کہہ ڈالا کہ “جس طرح قطرہ قطرہ مل کے سمندر بناتا ہے اسی طرح سو سو مل کر ایک دن کڑور بن جائیں گے ” ۔ یہ سن کے میں اپنے منصبِ گداگری سے مستعفیٰ ہوا ۔
راستے میں ایک دو جگہ مختصر قیام کر کے ہم ایبٹ آباد کی جانب اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہے تھے جتنی تیزی سے روشنی اندھیرے میں تبدیل ہو رہی تھی اور بالآخر ہم ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہوئے ۔ایبٹ آباد آتے ہی ہمارا پہلا استقبال بادلوں نے گرج کر کیا اور دوسرا بسوں سے اترنے کے بعد کتوں نے بھونک کر کیا ۔بادل تو پھر ںرسے بھی لیکن شکر ہے کہ کتوں نے کاٹا نہیں۔ ۔۔ایوب میدیکل کالج پہنچتے ہی سب نے ہاسٹلز کا رخ کیا لیکن میں اور میرا دوست سوئے مے خانہ روانہ ہوئے۔
جہاں ہمارے رہنے اور بہکنے کا انتظام ہمارے ایک ایوبی دوست نے پہلے سے کر رکھا تھا ۔

رات کاٹی خدا خدا کرکے

ایبٹ آباد میں جب پہلی صبح ہوئی تو خبر ملی کہ کلاس کے چند اکابرین اور حسیناؤں نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا اگلا پڑاؤ ٹھنڈیانی ہوگا اور اس کے بعد خانپور ڈیم ۔اس حکم کی تعمیل میں چار بسیں ایوب سے ٹھنڈیانی کی جانب روانہ ہوئیں ۔
ٹھنڈیانی کے بارے میں جب دوستوں سے دریافت کیا تو حیرت انگیز طور پر متضاد رائے ملی۔ ایک دوست نے ٹھنڈیانی کو زمین پر بہشت کا ٹکڑا قرار دیا تو ہم نے اگے سے کہا کہ” کیا حوریں بھی ہوں گی” تو اس نے شرما کر کہا کہ “حوریں تو ساتھ لے کے جا رہے ہیں”۔ اور دوسرے دوست نے ٹھنڈیانی کے خطرناک موڑوں کا وہ بھیانک نقشہ کھینچا کہ ہم نے احتیاطاً موبائل کے نوٹ پیڈ میں چند وصیتیں لکھ ڈالیں ۔

خراب راستے کی وجہ سے بسیں وقفے وقفے سے رکتی رہی اور ایک جگہ پہنچ کر ایک بندے نے آواز لگائی کہ “اگر اور آگے جانے کی کوشش کی گئی تو اس بار موت کو چھو کے ٹک سے واپس نہیں آسکیں گے “۔ تمام بسیں یہیں رک گئیں ۔بس سے اترنے کے بعد معلوم ہوا کہ صرف راستہ ہی نہیں خراب بلکہ ہمارے سی آر کی قسمت بھی خراب ہے کیونکہ ہمیں ابھی ابھی خبر ملی تھی کہ ہمارے ایک کلاس فیلو نے سی آر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنا دیا ہے یہ سن کر ہم نے سی آر سے اظہارِ ہمدردی کی اور ظالموں کو برا بھلا کہا۔
ٹھنڈیانی کو ادھورا چھوڑ کر اب ہم خانپور کی طرف روانہ ہوگئے ۔ٹھنڈیانی کو نہ دیکھنے کی حسرت لیے سب غمزدہ بیٹھے تھے کہ اچانک کسی نے بس میں ایک ایسا گانا لگایا جس سے ماتم کا ماحول جشن میں تبدیل ہوا سب دیوانہ وار ناچتے گئے۔ لیکن میں اور میرا دوست آخری سیٹ پر بیٹھے تصورِ جاناں کے مزے لیتے رہے۔تخیل سے جاگنے کے بعد پتہ چلا کہ خانپور ڈیم آگیا ہے ۔

ڈیم دیکھ کر ٹھنڈیانی کی آدھی تھکن اتر گئی اور باقی آدھی تھکن کو دور کرنے کے لئے ہم نے قریبی ہوٹل سے چائے پکڑی اور اونچی جگہ بیٹھ گئے ۔اونچی جگہ بیٹھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ ہم اشرف المشروبات پیتے ہوئے اشرف المخلوقات کے کارناموں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ہمارے کلاس فیلوز مخلوط کشتیوں میں سوار ہو کر موبالی آئلینڈ کی جانب روانہ ہو رہے تھے ۔۔اسی دوران میں دیکھتا ہوں کہ ایک لڑکا لڑکیوں کی کشتی کو نوح کی کشتی سمجھ کر اس میں بیٹھ گیا۔چائے کا گھونٹ لے کر جب پھر نظر دوڑائی تو بیچارے کو بے دخل کردیا گیا تھا ۔۔۔

یہ منظرِ بے تاب دیکھ کر جب میری طنزیہ ہنسی نکلی تو میرا دوست جو خود کو عاشق سمجھتا ہے کہنے لگا کہ “محبوب کی کشتی میں ایک منٹ ہاسٹل کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے ۔”
رفتہ رفتہ تمام کشتیاں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئیں اور نا چاہتے ہوئے بھی ہم انکی واپسی کے لیے دعاگو ہوئے ۔
خدا جانے چائے والے نے چائے میں کیا ملایا تھا جسے پیتے ہی ہم نے سود و زیاں کی پروا کیے بغیر موبالی آئلینڈ جانے کا فیصلہ کیا ۔واٹر بائیک والے لونڈے نے غیر ضروری احتیاطی تدابیر اور دو لائف جیکٹ دے کر ہمیں روانہ کیا ۔پانی کی لہروں کو چیرتے ہوئے تقریباً پندرہ منٹ کی آبی مسافت کے بعد مجھے موبالی آئلینڈ نظر آنے لگا اور میرے دوست کو مخلوط کشتیاں ۔۔
موبالی کی پر کیف ہوا میں لمبی سانسیں اور چند سیلفیاں لینے کے بعد ہم وہاں پر موجود ایک خالی جھولے پر براجماں ہوئے ۔جھولا جھولنے لگا اور ہم اپنی تخیل کی حدوں کو چھونے لگے۔ اچانک میری نظر رخصت ہوتی ہوئی مخلوط کشتیوں پر پڑی جو جاتے جاتے بیچ میں رک گئیں ۔میں نے اندازے لگانے شروع کیے تو میرے ذہن میں تین خیالات آئے ۔پہلا یہ کہ شاید کسی لڑکی سے لیپ سٹیک پانی میں گر گیا ہے اور وہ اب بضد ہے کہ جب تک پانی سے صحیح سلامت لیپ سٹیک برآمد نہیں کیا جائے گا تب تک کشتیاں آگے نہیں جائیں گے ۔دوسرا یہ کہ کسی عاشقِ نامراد نے اپنی محبوبہ کو ایمپریس کرنے کے لیے پانی میں چھلانگ مار لی ہے اور اب سب اس کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اور تیسرا یہ کہ کشثی خراب ہو گئی ہے ۔میں یہی قیاس آرائیاں کر رہا تھا کہ وہاں کے سیکورٹی گارڈ نے میرے دائیں کندھے کو اپنی بندوق کی نوک سے رگڑا اور ہمیں پانچ منٹ کی مہلت دے کر دفع ہو جانے کا حکم دیا ۔ ہم نے اپنے ملاح کو اشارہ کیا اور واٹر بائیک پر سوار ہو گئے ۔مذکورہ کشتیوں کے نزدیک آتے ہی معلوم ہوا کہ کشتی خراب ہوگئی ہے۔ ہمارا ملاح خراب کشتی میں کھود گیا اور ٹھیک کرنے کے لیے تک و دو کرنے لگا۔ اس وقت میرا دوست بھی کافی جذباتی ہو گیا تھا اور کشتی ٹھیک کرنے کے جذبے سے سرشار غوطہ لگانے کے لیے تیار بیٹھا تھا ۔(وہ تو شکر ہے کہ میں نے اس کی عزت اور ڈوبتی کشتی بچالی) ۔میرے ذہن میں اس وقت یہ شعر گردش کر رہا تھا کہ
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

بہت بے ابرو ہو کر تیری کشتی سے ہم نکلے

اسی دوران ہمارا ملاح واپس آیا اور دوسروں کی موت کو اتنی نزدیک سے دیکھنے کے بعد ہم واپس روانہ ہوئے ۔
اندھیرے نے پورے ڈیم کو اپنی لپیٹ میں لیا اور جیسے تیسے کر کے تمام کشتیاں ملاحوں کی غفلت اور بد دعاؤں کے باوجود واپس پہنچ گئیں ۔۔۔۔ایک آدھ گھنٹہ قیام کے بعد واپس ایبٹ آباد کی جانب روانہ ہوئے ۔کرن خان کی غزلوں نے خانپور سے واپسی کا سفر اور زیادہ مزیدار و یادگار بنادیا۔ ایبٹ آباد پہنچ کر بٹ کڑاہی کھانے کے بعد ہم سوئے مے خانے روانہ ہوئے اور پھر
رات ٹوٹے ہوئے خوابوں کی عزاداری کی

ایبٹ آباد میں ہماری آخری صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ حسبِ معمول روایتی نوک جھوک کے بعد کلاس کے اکابرین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ ہماری اگلی منزل گلیات ہے اور پھر وہاں سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے سیدھا اپنے پیارے کالج ۔
تقریباً بارہ بجے ہلکی سی گرج چمک کے ساتھ ہم نے ایوب میڈیکل کالج اور ایبٹ آباد کو خیرباد کہا اور گلیات کی جانب روانہ ہوئے ۔
نتھیاگلی پہنچ کر وہاں کے سڑکوں پر چہل قدمی کرنے لگے۔ گلیات کا موسم ہمارے محبوب کی طرح اپنی بدلتی ہوئی اداؤں کی وجہ سے مشہور ہے ۔آج اس بات کا اندازہ ہوگیا۔یہاں کے سہانے موسم کی زد میں آکر ہمارے اکثر کلاس فیلوز نے بے حساب پکوڑے کھائے تھے اور پھر کسی کو بیت الخلا کا پتہ نہیں مل رہا تھا ہر کوئی اپنی عقابی نظروں سے واش روم تلاش کر رہا تھا ۔اسی کشمکش میں ہمارے ایک دوست نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا کہ بھائی واش روم کدھر ہے ؟ اس سوال پہ وہ رنجیدہ ہوئے اور غصے سے منہ پھیر لیا ۔(شاید وہ خود واش روم کی تلاش میں تھا)۔

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ غسل خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس نے پکوڑے کھائے تھے

گلیات کے پکوڑے ہمارے بعض کلاس فیلوز کو بہت مہنگے پڑے۔ ایک نے تو یہ تک کہا کہ کہ “اتنے پیسے تو کھانے پہ نہیں لگے جتنے اب نکالنے پہ لگ رہے ہیں “۔ ایک اور کلاس فیلو اپنا بٹوہ بس چھوڑ کے بیت الخلا گیا ۔پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے منتظمین نے اسے حراست میں لے لیا ۔لیکن بعد میں ہم نے سو روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرا کے اسے بازیاب کرایا۔

ایک دو گھنٹے کی شغل مستی کے بعد ہم ایوبیہ کی جانب روانہ ہوئے ۔دوست احباب نے فیصلہ کیا کہ ایوبیہ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے

لیے پائپ لائن ٹریک کو پیدل سر کیا جائے ۔ٹریک پر روانہ ہوئے تو سب تیز رفتار سے جانے لگے لیکن ہم انگریزی محاورے

slow and steady wins the race

پر عمل کرتے ہوئے سب سے آخر میں تھے۔ (لیکن سب سے آخر پہنچ کر ہمیں اس محاورے کی صداقت پر شبہ ہوا ۔) پندرہ بیس منٹ کی چہل قدمی کے بعد مجھے ایک بورڈ نظر آیا جس پہ لکھا تھا کہ

you are in the middle of trap

یہ دیکھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوئے اور دل بیٹھ گیا۔ لیکن غور کرنے کے بعد پتہ چلا کہ

“track” نہیں “trap”

ہے۔
ہم ٹریک کے اختتام پر ہی تھے کہ بارش شروع ہوگئی جو ہمارے طبیعت پر سخت ناگوار گزری کیونکہ ہمارا تعلق اس مکتبۂ فکر سے ہے جو بغیر محبوب کے بارش میں بھیگنے کو بدعت سمجھتے ہیں۔
تیز بارش کی وجہ سے ایوبیہ نے سب کو رومانوی حصار میں لے لیا ۔اور بارش کی ہر گرتی بوند ہماریے شدتِ تشنگی کو مزید ہوا دے رہی تھی ۔اسلام میں شراب حرام ہے اس لیے قافلے کے تمام مسلمانوں نے چائے پر اکتفا کیا لیکن ہمارا ماننا ہے کہ صرف چائے پر اکتفا کرنا ایسے دلکش موسم کی توہین ہے ۔
بارش رکنے کے بعد تمام بسیں اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئیں ۔

سفر تمام ہوا آخری پڑاؤ ہے

اسلام آباد پہنچ کر سینٹورس کا رخ کیا ۔سینٹورس کا انٹری ٹکٹ بڑا معمہ بن گیا ۔کلاس کے مشہور نام نہاد منتظمین ٹکٹ معاف کرانے کے چکر میں سیکورٹی گارڈ سے جب کئی بار زلیل ہوئے تو انہیں چین نہ آیا اور ایک بزرگوار ٹی ایم او کو آگے کیا ۔ٹی ایم او نے آگے بڑھ کے سیکورٹی کارڈ پر رعب جھاڑنے کے لیے اپنا ہیلتھ کارڈ نکالا جسے دیکھ کر سیکورٹی گارڈ نے غصے سے کہا کہ” او بھئ نہ یہ ہسپتال ہے اور نا ہم مریض ہیں ” یہ سن کر بیچارہ ٹی ایم او جو شکل سے مسکین نظر آتا ہے غمگین بھی ہو گیا ۔اسی بے چارگی کے عالم میں ہمارے ایک کلاس فیلو نے سیکورٹی گارڈ کے سامنے غربت کی ایسی فریاد کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے سب کو اندر آنے کی اجازت دے دی ۔
سینٹورس جا کے نگاہوں نے بد پرہیزی شروع کی لیکن دل نے لبیک نہیں کہا۔بس دو تین طواف کر کے ہم وہاں سے باہر نکلے اور انتظار کرنے لگے کہ کب قافلہ اپنے گھر کی جانب گامزن ہوگا ۔ ویسے ہم نے تو سینٹورس کے طواف کئے لیکن اکثر مجاہدین صبح و شام ایک مخصوص بس کے گرد طوافِ آرزو میں مصروف نظر آتے تھے ۔رات کافی ہو چکی تھی اور بالآخر ہماری چار بسیں اسلام آباد سے سوات کے لیے روانہ ہوئیں۔

رات کے تقریباً تین بجنے والے تھے کہ ہم نے تین دن بعد سوات کی آب وہوا میں سانس لیا۔ کالج پہنچتے ہی ایسا لگا کہ ہم تو آگئے ہیں لیکن دل اب بھی ایوبیہ میں بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے اور دماغ اب بھی شاید موبالی آئلینڈ کے جھولے میں جھولتا ہوا مخلوط کشتیوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔